دہریت علماََ اندھا
ایمان اور منہجاََ سوفسطائیت
Umer Awan بشکریہ
دہریت (atheism) علماً اندھا ایمان (blind faith)
اور منہجاً سوفسطائیت (sophism)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالق اور مخلوق دونوں حقیقت ہیں۔ دہریت (atheism)
علماً اندھا ایمان (blind
faith) اور منہجاً سوفسطائیت (sophism)
ہے۔ خالق اور مخلوق دونوں کا وجود حقیقت (reality) ہے کیونکہ “صفت خلق” (creation)
اور مخلوق (creature)
کا تعلق علت ومعلول (cause
and effect) کا ہےکہ جس میں ایک کے اقرار سے دوسرے کا
انکار ناممکن ہے۔ منکرین خدا (atheists)کے پاس خدا کے انکار کی
جو سائنسی دلیل ہے وہ دو علوم ، فزکس اور بیالوجی، سے پیدا کی گئی ہے۔
“نظریاتی فزکس” میں کائنات کی ابتداء کو متعین
کرنے کے لیے بگ بینگ (Big
Bang) کا نظریہ پیش کیا گیا جبکہ “نظریاتی
بیالوجی ” میں انسان کی ابتداء کو جاننے کے لیے ارتقاء کا نظریہ (Theory of Evolution)
سامنے آیا۔ یہاں ہم نہ صرف دونوں قسم کے نظریات کا ایک تجزیہ پیش کریں گے بلکہ
متبادل نظریہ تخلیق (Creationism)
کا بھی ذکر کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ منکرین خدا نے فزکس میں بگ بینگ اور
بیالوجی میں ارتقاء کے نظریات پر کمال ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی سیاسی پارٹی
کے جیالوں کے سے رویے کے ساتھ اہل مذہب کے خلاف ایک فکری جنگ (intellectual war)
کا آغاز کر دیا ہے۔ اہل سائنس اور اہل مذہب دونوں بالترتیب سائنس اور مذہب پر نہ
صرف اندھا ایمان (blind faith)
لاتے ہیں بلکہ اس کے پرجوش مبلغ بھی ہیں۔ اور دونوں ہی ایمان اور جذبات کی بنیاد
پر آپس میں مکالمہ (dialogue)
کر رہے ہیں۔ ایک کا پیغمبر پر ایمان ہے جبکہ دوسرے کا سائنسدان پر۔
فزکس میں بیگ بینگ کا نظریہ “کائنات کی ابتداء کیسے
ہوئی ؟”[How]
کا تو جواب دیتا ہے لیکن “کیوں ہوئی؟” [Why]کو واضح نہیں کرتا۔ بعض
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ایم –تھیوری M-Theory)
( کی صورت میں ایک ایسا نظریہ بیان کر دیا ہے کہ جس نے کائنات کے وجود کے بارے
بنیادی سوالات کا جواب دے دیا ہے اور وہ اسے “A Theory of Everything”
کا نام دیتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ ایک ریاضیاتی مساوات (mathematical equation)
کے ساتھ اس کائنات کی ہر شیء کی تشریح کر سکتے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ ممکن ہے کہ
ہم ایک ہی مساوات (equation)
کے ساتھ ساری کائنات کی تشریح کر سکیں لیکن و ہ مساوات “خالق اور مخلوق کاباہمی
تعلق” کی مساوات ہے۔
فزکس کی “A Theory of Everything”
نے عمدہ سوالات توخوبصورت طریقے سے اٹھا دیے لیکن ساتھ ہی اس سوال کوغیر متعلق
قرار دیا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ یا قوانین فطرت کا مبدا (origin of laws of
nature) کیا ہے؟ وہ اس بارے کچھ بات کرنے کو تیار
ہی نہیں سوائے اس انفارمیشن کے کہ گلیگلیو (Galileo)،
کاپرنیکس (Copernicus)
اور نیوٹن (Newton)
ان قوانین کو خدا کا کام (Work of God) مانتے تھے۔ یہ سب
سائنسدان تو خدا (personal God)
پر ایمان رکھتے ہی ہیں بلکہ ان کے علاوہ آئن اسٹائن (Einstein)،
آرتھر کامٹن (Arthur Compton)،
پاسکل (Blaise Pascal)،
ارنسٹ ہیکل (Ernst Haeckel)
، جیمز میکس ویل (James Maxwell)،
ڈیکارٹ (Rene Descartes)،
بیکن (Francis Bacon)،
کیپلر (Johannes Kepler)،لوئیس
پاسچر(Louis Pasteur)،
گریگر (Gregor Mendel)،
گاٹ فریڈ (Gottfried Leibniz)،
مارکونی (Guglielmo Marconi)،
میکس پلانکس (Max Planck)،
تھامسن کیلون (Thomson Kelvin)،
ہینزبرگ (Werner Heisenberg)،
ایرون شیلڈینر (Erwin Schrodinger)
، فرانسس کولنز (Francis Collins)،
جان ایکلز (John Eccles)وغیرہ
بھی خدا کے وجود پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں لیکن عصر حاضر میں جو تھیوری بھی
اپنے بارے میں “A Theory of Everything”
ہونے کا دعوی کرے گی تو اسے تو ان سارے سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔
چلیں! اگر بفرض محال ہم اس نظریے پرایمان لے
آئیں کہ قوانین فطرت(laws
of nature) نے کائنات کو پیدا کیا ہے تو اگلا سوال یہ
پیدا ہوا کہ قوانین فطرت کا مبدا (origin) کیا ہے؟ یا ہم اس کو مان
لیں کہ اس کائنات کی ابتدا بگ بینگ (Big Bang)سے ہوئی ہے تو اگلا سوال
یہ پیدا ہواکہ اس سے پہلے کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے جب تک آپ کا نظریہ ان بنیادی
سوالات کی وضاحت نہیں کرتا اس وقت تک یہ نامکمل اور ناقص ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
بگ بینگ وغیرہ ابھی نظریہ (theory) ہے نہ کہ مشاہدہ (observation)یا
تجربہ (experiment)
اور کسی سائنسی نظریہ پر ایمان لانا، کسی مذہبی نقطہ نظر پر ایمان لانے سے کس طرح
مختلف ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں “blind faith ” نہیں ہیں؟تیسری بات یہ
ہے کہ اگر کائنات کی ابتدا کے بارے کوئی سائنسی نظریہ مشاہدہ یا تجربہ (observation or
experiment) سے ثابت ہو بھی جائے تو دنیا میں کتنے لوگ
ہیں جو سائنسی مشاہدے یا تجربات کو متعلقہ علوم کی اصطلاحی زبان میں(in terms of concerned
sciences) سمجھنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں؟
“ایم –تھیوری” سے اگر آپ کائنات کی تشریح کر دیں
تو اس تھیوری کو دنیا میں سمجھنے والے کتنے لوگ ہوں گے؟ اپنی اہلیت اور تعلیم
دونوں پہلوؤں سے؟ “ایم -تھیو ری”، ماہرین فزکس کی سمجھ میں جتنی آئے سو آئے، بقیہ
دنیا کے لیے یہ سائنس نہیں بلکہ سائنسدانوں پر ایمان بالغیب کا سوال ہی رہے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ابھی تو بگ بینگ پر تحقیقات سامنے آ رہی ہیں اور کچھ
سائنسدانوں نے اسے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ حال ہی میں جرمن یونیورسٹی
ہائیڈل برگ (Heidelberg University)
کے ایک نظریاتی ماہر طبیعیات (theoretical physicist)نے
”A Universe without
Expansion, 2013“ کے نام سے ایک ریسرچ آرٹیکل پیش کیا ہے۔
بگ بینگ (Bif Bang)،
ارتقاء (Theory of Evolution)،
بلیک ہولز (Black Holes)
اور کثیر کائناتی (Multiverse)نظریات
اس سے زیادہ ایمان بالغیب کے متقاضی ہیں کہ جتنا “کتاب مقدس” اپنے ماننے والوں سے
کرتی ہے۔ایک دہریے نے مسلمان سے کہا: کیا آپ نے دی گرینڈ ڈیزائن ”The Grand Design“
پڑھی ہے؟ مسلمان نے کہا: کیا آپ نے دی گرینڈ پلان ”The Grand Plan“پڑھی
ہے؟ دہریے نے کہا: نہیں! ویسے یہ کتاب کس کی ہے؟ مسلمان نے کہا: دی گرینڈ ڈیزائن
میں تو صرف ڈیزائن کا ذکر ہے، ڈیزائنر غائب ہے جبکہ دی گرینڈ پلان میں گرینڈ
ڈیزائن کے ساتھ ڈیزائنر کا بھی ذکر ہے۔ دہریہ کہنے لگا: واہ، کمال کی بات ہے۔ لیکن
پھر بھی بتاؤ تو سہی کہ لکھی کس نے ہے؟ مسلمان نے کہا: خود ڈیزائنر نے۔
اس مکالمہ میں “دی گرینڈ پلان” سے مراد “لوح
محفوظ ” ہے کہ جس میں کائنات کا ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ “دی
گرینڈ ڈینزائن ” تو کسی کو دیکھنا شاید ہی نصیب ہو لیکن “دی گرینڈ پلان” کا مشاہدہ
(observation)
اور تجربہ (experience)
تو ہم روزانہ آفاق وانفس (Horizons of the Universe and own selves)
میں کرتے ہیں۔ سائنسدان اس “پلان” کے انسانی ذات اور کائنات دونوں پر واقع ہونے کے
سامنے کس قدر بے بس، محتاج، عاجز اور مسکین ہے؟ قوانین قدرت (laws of nature)
کو دریافت اور تسخیر کر لینے کے بعد بھی نہ اس دنیا میں آنے میں انسان کی مرضی
غالب ہے اور نہ جانے میں اس کی خواہش کا احترام ہےاور نہ ہی آنے جانے کے درمیانی
وقت میں کسی خوشی کا حصول یا تکلیف سے نجات میں اس کا ارادہ (will)
غالب ہے۔ ڈیزائن عظیم ہے تو ڈیزائنر بھی عظیم ہو گا اور نہ صرف عظیم ہو گا بلکہ
اپنی مرضی (will)
کو غالب رکھےگا۔
بگ بینگ کو اگر مان بھی لیا جائے تو وہ بھی کسی
مادے (mass)
اور توانائی (energy)
کے بغیر تو نہیں ہوسکتا اور سوال یہ ہے کہ وہ مادہ اور توانائی کہاں سے آئی تھی؟
زیرو کو جمع کرلیں، منفی کر لیں، ضرب دے لیں یا تقسیم کر لیں، ہر صورت میں جواب
زیرو ہی ہو گا۔
اب کیا اشرف المخلوقات اس قدر گر جائے گا کہ
سمیع وبصیر وحدہ لاشریک کے مقابلے میں اندھے بہرے مادی قوانین فطرت کے نہ صرف خالق
اور مدبر (creator and organizer)
بلکہ رازق (sustainer)
اور قدیر (powerful to will
anything) ہونے پر بھی ایمان لے آئے گا؟ اتنی سیدھی
سی بات ہے لیکن اس کو سمجھ نہیں آ سکتی کہ جس پر اپنی “سمجھ” دہریوں کے پاس رہن
رکھوانے کا طعن لگ جائے۔
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ
الْخَالِقُونَ ﴿35﴾ [الطور]
We will describe how M-theory may offer
answers to the question of creation. According to M-theory, ours is not the
only universe. Instead, M-theory predicts that a great many universes were
created out of nothing. Their creation does not require the intervention of
some supernatural being or god. Rather, these multiple universes arise
naturally from physical law. [Stephen W. Hawking and Leonard Mlodinow, (Bantam
Books: New York, 2010), p. 14]; Bodies such as stars or black holes cannot just
appear out of nothing. But a whole universe can…Because there is a law like gravity,
the universe can and will create itself from nothing…It is not necessary to
invoke God to light the blue touch paper and set the universe going. [Stephen
W. Hawking and Leonard Mlodinow, p. 144]
قوانین فطرت کائنات کو پیدا کر سکتے ہیں لیکن
ایک جیٹ انجن نہیں بنا سکتے؟ دہریوں کی یہ عجیب تر منطق ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ
“عدم” (nothing)
سے “عدم” (nothing)
ہی نکل سکتا ہے نہ کہ “کچھ” (something)۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر
ہم یہ کہیں کہ X“
”نے Y“
” کو بنایا ہے تو X“”
پہلے ہو گا اور “ Y
” بعد میں۔ اور اگر ہم یہ دعوی کریں کہ X“ ” نے X“ ” کو پیدا کیا ہے تو X“”
اپنی پیدائش (creation)
سے پہلے موجود ہو گا اور یہ عدم (nothing) سے پیدا نہیں ہوا۔ تیسری
بات یہ ہے کہ جب کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کے لیے “قانون کشش ثقل” (law of gravity)
کا ہونا ضروری ہے تو یہ عدم سے تو وجود میں نہیں آئی۔ امر واقعہ یہ ہے، جبکہ بہت
سے ماہرین فزکس نے بھی اس کا اقرار کیا ہے، کہ الہیات (theology)
فزکس کا میدان نہیں تھا لیکن بعض نامور سائنسدانوں نے نظریاتی فزکس (theoretical physics)
کے رستے اس میں گھس کر اپنی تحریروں میں سطحیت پیدا کر لی ہے۔ پس قوانین فطرت
بیانیہ (descriptive)
اور خبریہ (predictive)
ہو سکتے ہیں لیکن خالق (creator)
نہیں۔
مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ
وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
﴿24﴾ [هود]؛ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي
الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ
أَمْ جَعَلُوا لِلَّـهِ
شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ
شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿16﴾ [الرعد]؛ وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ
وَالْبَصِيرُ ﴿19﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ﴿20﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا
الْحَرُورُ ﴿21﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن
يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ
بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿22﴾ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ ﴿23﴾ إِنَّا
أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا
نَذِيرٌ ﴿24﴾ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ﴿25﴾
[الفاطر]؛ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِن فِي صُدُورِهِمْ
إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ ۚ
فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ
ۖ إِنَّهُ هُوَ
السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿56﴾ [غافر]
اور فزکس میں خود (quantum mechanics)
اور (general relativity)
کے میدانوں (disciplines)
کے باہمی اختلاف نے فزکس کے رستے حقیقت (reality) تک رسائی کو تقریباً
ناممکن بنا دیا ہے۔ پہلی شاخ کی بیناد electromagnetic، strong nuclear
اور weak nuclear
قوتوں پر ہے جبکہ دوسری میں اصل کشش ثقل (gravity) ہے۔ اور اس موضوع پر
مطالعہ یہ بتلاتا ہے کہ “quantum gravity ” کے رستے اسٹرنگ تھیوری
(string theory)
وغیرہ جیسی کوششوں سے انہیں جمع کرنا تا حال ایک خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں کوانٹم میکانکس میں اصول لا یقینیت(uncertainty principle)
اور موج وذرہ دوگانگی (wave-particle
duality) نے تو اس مقدمے کو کچھ اور یقینی بنا دیا
ہے کہ فزکس کے رستے حقیقت (reality) تک رسائی ناممکن ہے۔اگر
بگ بینگ کو مان بھی لیا جائے تو بھی ڈیزائن کی دلیل (Design Argument)
اس بات کی متقاضی ہے کہ خالق کو مانا جائے ۔
مثلا ًکیا وجہ ہے کہ بگ بینگ میں توسیع کائنات
کا تناسب(rate of expansion of
the universe) اتنا ہی کیوں ہے کہ جو زندگی کے لیے معاون
(supporting for life)
ہو؟ اسی طرح اس تھیوری میں سینکڑوں مقامات پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور ہر جگہ اس
کا جواب اتفاق (chance)
سے دینا ناممکن بلکہ نظریہ احتمال (probability theory) کے بھی خلاف ہے۔ اس
“اتفاق” کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے دہریوں کی طرف سے “کثیر کائناتی” (Multiverse)
کا نظریہ پیش کیا گیا ہےاور ہمارے سادہ لوح مسلمان سائنسدان اس نظریے کو قرآن مجید
سے ثابت کرنے کی کوششیں فرما رہے ہیں ۔ معلوم نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا ہم
مغرب کے جملہ سائنسی اوہام (superstitions) کو قر آن مجید سے ثابت
کر ہی کتاب اللہ اور سائنسی نظریہ دونوں کی حقانیت (authenticity)ثابت
کر سکتے ہیں؟
اور اب تو “متوازی کائنات” (parallel universe)
اور اسی طرح “مخالف زمین” (counter earth) اور “تاریک توانائی” (dark energy)
وغیرہ جیسی ابحاث کا مطالعہ کرنے سے یہ “سائنس” کم اور “افسانہ”(fiction)
زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اور اللہ نہ کرے کہ ہمارے ہاں کسی مخلص مسلمان سائنسدان کو
یہ خیال سوجھے کہ وہ اس “افسانوی سائنس” (theoretical physics)سے “عالم مثال” کا وجود
ثابت کرنے کی کوشش کرے۔
اور خدا کے وجود کے بہت سے دلائل ہیں کہ جو اس
وقت ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ مثال کے طور مذہبی تجربہ (religious experiment)
اس کے وجود کی ایک صریح دلیل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے:
اللَّـهُ
نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ
مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖالْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ
كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا
شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ
نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن
يَشَاءُ ۚوَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ
لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ
عَلِيمٌ ﴿35﴾ [النور]
اور ایمان محض اندھے یقین (blind faith)
کا نام نہیں بلکہ ایک تجربہ (experiment)بھی ہے جیسا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلاَثٌ مَنْ
كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ
إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ
عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ، بَعْدَ إِذْ
أَنْقَذَهُ اللَّهُ، مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ. [البخاري،
أبو عبد الله محمد بن إسماعيل، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله
صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري، كِتَابُ الإِيمَانِ، بَابٌ مَنْ
كَرِهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ مِنَ
الإِيمَانِ، دار طوق النجاة، الأولى، 1422هـ، 1/13]
اسی طرح دنیا میں لاکھوں انسانوں کو اس کا تجربہ
ہوتا ہے کہ وہ وہ کسی مشکل گھڑی میں اپنے رب کو پکارتے ہیں تو ان کی مصیبت دور ہو
جاتی ہے اور اکثر اوقات تو دنیاوی علوم کے مطابق آزمائش کے ٹل جانے یا دعا کے پورا
ہو جانے کی سوائے “خدا کی مدد”(Intervention of God) کے اور کوئی توجیح ممکن
نہیں ہوتی مثلا ً کینسر کے آخری مرحلے کے مریض دعا کے نتیجے میں صحت یاب ہو جاتے
ہیں یا بانجھ (sterile)
کو اولاد مل جاتی ہے۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ کے پاس ایک دہریہ (atheist)
آیا اور ان سے کافی دیر تک خدا کے وجود کے بارے سوالات کرتا رہا اور شیخ اس کے
سوالات کے جوابات دیتے رہے یہاں تک کہ اس نے تنگ آ کر کہا : کیا آپ کو کبھی خدا کے
وجود کے بارے شک نہیں ہوا؟ شیخ نے کہا: نہیں، اور یہ تمہاری بدبختی ہے کہ تمہیں
خدا کے وجود کے بارے شک پیدا ہوا ہے۔
قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ فَاطِرِ
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖيَدْعُوكُمْ
لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚقَالُوا إِنْ أَنتُمْ
إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ
آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿10﴾ [إبراهيم]
شیخ کے اس جواب میں کوئی بناوٹ یا مصنوعیت نہیں
تھی۔ آپ آج بھی پاکستان کے کسی بھی گاؤں کی مسجد میں پنچ وقتہ نمازی ان پڑھ بوڑھے
بابا جی سے سوال کر لیں کہ انہیں اپنی زندگی میں کبھی خدا کے نہ ہونے کے بارے سوال
پیدا ہوا تو جواب نفی میں ہو گا۔ دنیا میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ ہیں جنہیں
زندگی بھر میں نہ تو کبھی شک ہوا اور نہ ہی کوئی سوال پیدا ہوا۔ یہ کیا ہے؟ یہ
ایمان کا تجربہ ہےجو ہر “مخلص” بندہ مومن کو حاصل ہوتا ہے جبکہ “مداری” اس سے
محروم رہتا ہے۔
علاوہ ازیں خالق کے وجود پر اس کی مخلوق ہی
دلالت کرنے کے لیے کافی ہے جیسا کہ فن پارے کا وجود فنکار(artist)،عالیشان
عمارت کا وجود اپنے معمار اور جیٹ انجن کا وجود اپنے انجینئر کے حسن تخلیق کی دلیل
ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ
بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ
ثُمَّ اللَّـهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ
الْآخِرَةَ ۚإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ
قَدِيرٌ ﴿20﴾ [العنكبوت]؛ وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿20﴾ وَفِي
أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
﴿21﴾ [الذاريات]؛ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ
يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ
أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿53﴾ [فصلت]؛ قيل
لبَعض الاعراب بِمَ عرفت رَبك فَقَالَ البعرة تدل على الْبَعِير وآثار الخطا تدل
على الْمسير فسماء ذَات أبراج وَأَرْض ذَات فجاج كَيفَ لَا تدل على الْعلي
الْكَبِير. [إيثار الحق على الخلق في رد الخلافات إلى المذهب الحق من أصول
التوحيد، ابن الوزير، محمد بن إبراهيم بن علي بن المرتضى الحسني القاسمي، دار
الكتب العلمية – بيروت، الثانية، 1987م، 52]
رہی بیالوجی کی بات تو زمین پر حیات کی ابتدا (Origin of Life on
Earth) سے ہٹ کر کائنات کے مبدا (Origin of the Universe)
کے بارے کچھ پشین گوئی (predict)
اس کے بس سے باہر ہے کیونکہ یہ اس کا موضوع اور میدان ہی نہیں ہے۔تو یہ نظریہ بھی
نامکمل اور ناقص ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ “A Theory of Everything”
بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کو مان لینے کا لازمی نتیجہ خدا کا انکار
(atheism)
نہیں ہے۔
“نظریہ تخلیق” (creationism)
نے جو مکاتب فکر (schools of thought)
پیدا کیے ہیں ان میں ”Theistic
Evolution“ اور ”Intelligent Design“
نے ارتقاء کو خدا کے وجود کی دلیل کے طور بیان کیا ہے۔امریکن ماہر جینیات (geneticist)
ڈائریکٹر این آئی ایچ (NIH)
کی کتاب ”The Language of God: A
Scientist Presents Evidence for Belief“
اسی سلسلے کی کوشش ہے۔پھر ارتقاء ایک نظریہ (theory)
ہے یا امرواقعہ (fact)،
اس بارے ماہرین حیاتیات (biologists) کا اختلاف ہے۔ ڈاکنز (Dawkinz)
کے نزدیک یہ ایک امر واقعہ (fact) ہے، فٹشیو (Kirk Fitzhugh)
نے اسے نظریہ (theory)
کہا ہے۔ اور جولین ہکسلے (Julian Huxley)، رچرڈ لینسکی (Richard Lenski)
وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ کچھ نظریہ (theory)ہے اور کچھ امر واقعہ (fact)۔
اور جسے امر واقعہ کہا جا سکتا ہے وہ وقت کے ساتھ حیاتیات میں تبدیلی (change in organism
during the history) ہے جبکہ اس کے علاوہ
ابھی نظریہ ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کو امر واقعہ (fact)
ماننے کا جواب Irreducible Complexity“”
کے نظریہ میں مکمل طور موجود ہے۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے “The Blind watchmaker”
سے دینے کی کوشش کی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ دہریے سنتے دیکھنے خالق کا انکار کرتے
کرتے اندھے بہرے خدا کا اقرار کر بیٹھے۔
عصر حاضر کے دہریوں نے خدا کے انکار کے نتیجے
میں جو “جہالت” پیدا کر دی ہے، اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ یا تو آپ ارتقاء پر
ایمان لاتے ہوئے فطری انتخاب “Natural Selection” کو اندھے بہرے خدا کے
طور پر مان لیں یا پھر بگ بینگ پر ایمان رکھتے ہوئے خدائی ذرے “God Particle”
کی کھوج کی صورت میں اندھے بہرے خدا کی تلاش کی مہم جاری رکھیں۔ ا ور پانچویں بات
یہ ہے کہ اگر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو بفرض محال امر واقعہ (fact)
مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ایک عام شخص کے لیے یہ ماہرین حیاتیات (biologists)
پر اندھا ایمان (blind faith)
لانے کا سوال ہی بنتا ہے کیونکہ عامی کے پاس نہ تو اس نظریے کے جمیع پیچیدہ اور
تفصیلی مراحل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اتنا علم کہ ان کا تنقیدی یا
تجزیاتی جائزہ (critical and analytic
study) لے سکے۔ چھٹی بات یہ ہے کہ ڈین این اے میں
تبدیلی (change in DNA)
ارتقاء کے حق میں جتنی دلیل بنتی ہے، اس سے زیادہ اس کے خلاف دلیل بنتی ہے۔ رینگنے
والے جانوروں (reptiles)کے
ڈی این اے (DNA)
میں پرندوں کے پروں کے بارے کوئی معلومات (information) نہیں ہوتی تو یہ اضافی
انفارمیشن (additional information)
کہاں سے آ گئی؟امر واقعہ یہ ہے کہ جنیاتی تبدیلی (genetic mutation)
سے جنیاتی انفارمیشن (genetic
information) پیدا نہیں ہوتی بلکہ کم ہی ہوتی ہے۔ اور
اضافی انفارمیشن کے لیے “intellect” کا ہونا ضروری ہے۔
آج کل کچھ مسلم بیالوجسٹ ارتقاء کے حق میں یہ
دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ قرآن مجید میں بھی تو بچے کی پیدائش کے مراحل بیان ہوئے
ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے مراحل میں جو تبدیلی ہے، وہ ایک ہی نوع (species)
کے متنوع مراحل ہیں جبکہ ارتقاء پسند تو “چھچھوندر” سے “انسان” بننے کی بات کر رہے
ہیں۔ اسی طرح “مالٹے” اور “کنو ”سے“ سنگترہ” بنانے یا ان سے “ناریل” اور “تربوز”
بنانے یا “آم” اور “کیلا” بنانے میں کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ “کتے” کی ایک نسل سے
دوسری نسل کے پیدا ہو جانے کے امکان اور “کتے” سے “بلی” بن جانے کے امکان میں کیا
کوئی فرق نہیں ہے؟ “ارتقائی درخت” (evolutionary tree) اسی قسم کے لطیفوں سے
بھرا پڑا ہےکہ جس کے مطابق “کتا” اور “ریچھ” آپس میں چچازاد (cousin)
ہیں لیکن دلیل اس کی “غائب ربط” (missing link) ہے۔ اور اب تو علمی
دیانتداری اور ارتقائی مذہب پر ایمان کا یہ عالم ہے کہ بیالوجسٹ “بندر” (apes)
اور “انسان” کے مابین “غائب ربط” (missing link) تلاش کرنے کی بجائے اسے
“بنانے” کی خدمت سر انجام دے رے ہیں۔
رہے پاکستانی دہریے (Pakistani Atheists)
تو ان سے بات چیت اور انہیں پڑھنے سننے کے بعد ایک شخص کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ
کسی مذاق (joke)
سے کم نہیں ہیں۔ ان میں کچھ تو نواجون ہیں جو اپنے دہریے (atheist)
ہونے پر بڑا فخر کرتے ہیں اور ان کی زندگی کا کل مقصود یہ ہے کہ انہیں اپنے خیالات
جیسی کوئی لڑکی (female atheist)
مل جائے اور اس کے بعد کی کہانی واضح ہے۔ ان میں بعض وہ بھی ہیں جو بات بات پر ان
شاء اللہ یا thank God“”
کہیں گے یا عید کی نماز پڑھ لیں گے یا کسی کی نماز جنازہ میں شریک ہو جائیں گے۔ ان
میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے مرنے سے پہلے اپنے ورثا کو یہ وصیت کی ہوکہ میرا
جنازہ نہ پڑھانا یا جو اپنی ماں، بیٹی یا بہن سے نکاح کو جائز سمجھتا ہو۔ ان میں
بعض وہ ہیں جو اپنے آپ کو مفکر (intellectual) ثابت کرنے لیے ایسی
حرکتیں کرتے ہیں جبکہ بعض وہ ہیں جو مولوی کا ردعمل (reaction)
ہیں۔ اور اگر زیادہ کسی نے علمی میدان میں کوئی تیر مار لیا تو کسی انگریز دہریے
کی کتاب کا اردو ترجمہ کر دیا اور اس فخر کے ساتھ جیسےاندھیروں میں علم کی “مشعل”
روشن کر دی ہو۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اصل کتاب اگر فنی ہو تو اردو ترجمے سے
زیادہ انگریزی میں کتاب زیادہ سمجھ آتی ہے۔ ان سب رویوں کے بارے ہمارے پاس پریشان
خیال دہریہ ”confused atheist“
کی ایک اصطلاح موجود ہے۔
بعض ماہرین حیاتیات (biologist)
کا کہنا ہے کہ ڈارون نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ ہم ایک مسلح فکری دہریے (intellectual fulfilled
atheist)کی طرح زندگی گزار سکیں جبکہ دوسری طرف
ہمارے بعض مسلم بیالوجسٹ قرآن مجید سے ارتقاء کو ثابت کرنے کی مذہبی خدمت سر انجام
دینے میں مصروف عمل ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ڈارون سے پہلے ان دہریوں (Atheists)
کے پاس تخلیق کائنات اور انسان کی ابتداءکی کوئی توجیہ موجود نہ تھی اور مذہب اور
خدا کا انکار کرنے کے بعد اہل مذہب کی طرف سے متبادل کے سوال پر یہ بغلیں جھانکنا
شروع کر دیتے تھے۔ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے تو گویا ان کی چاندی لگا دی ہے، اور اب
ان کے پاس خدا اور مذہب کے انکار کے بعد اس کائنات کے موجود ہونے کی کوئی واحد
کمزور ، نامکمل، گھسی پٹی، غیر منطقی، غیر سائنسی توجیہ اگر موجود ہے تو وہ ڈارون
کا نظریہ ارتقاء ہے۔ اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا گر جانا دہریت کی عمارت دھڑام
سے گرنے کے مترداف ہے۔
Darwin made it possible to be an
intellectually fulfilled atheist. [The Blind Watchmaker, (New York: Norton,
1986), pp. 6-7.]
مسلم معاشروں کی ایک انتہا تو اس قسم کے “جیالے
دہریے” (Pro Active Atheists)ہیں
جن کا ذکر اوپر گزر چکا جبکہ دوسری طرف “مذہبی جیالے” ہیں جوان دہریوں کے ردعمل
میں پیدا ہوئے ہیں یا یہ دونوں انتہائیں ایک دوسرے کا ردعمل ہیں۔ ہم میں بعض لوگ
بگ بینگ کی تھیوری کو قرآن مجید سے ثابت کرتے ہیں اور بعض ڈارون کا نظریہ ارتقاء،
اور اس طرح ثابت کرتے ہیں جیسے بنیادی ایمانیات (fundamental beliefs)
قرآن مجید سے ثابت ہو رہے ہوں۔ اب یہ “مذہبی جیالے پن” کا ہی یہ نتیجہ ہو سکتا ہے
کہ کافی عرصہ پہلے پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ سے متعلق
پروفیسرز کے ایک گروپ نے ایک ایسے پراجیکٹ پر کام شروع کیا کہ جس کا مقصد جنات سے
انرجی پیدا کرنا تھا تاکہ پاکستان میں انرجی کا بحران (energy crises)کم
کیا جا سکے، اللہ اکبر ! ۔ اس منہج کے مطابق لکھی گئی بعض تفاسیر کا مطالعہ کریں
تو قرآن مجید کتاب ہدایت (Book of Guidance) کم اور سائنس کی کتاب (Book of Science)
زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ گویا کہ اب قرآن مجید کی حقانیت اس وقت تک ثابت نہیں ہو گی
جب تک کہ وہ مغرب کے جملہ اوہام اور منگھڑت نظریات کی کسوٹی پر پورا نہ اترے۔
آج سے تقریباًچالیس سال پہلے ایک سائنسدان نے
بلیک ہولز کا نظریہ پیش کیا اور اس کے بعد سے بعض مسلمان سائنسدانوں نے قرآن مجید
کی سورۃ الواقعہ کی بعض آیات سے بلیک ہولز کو ثابت کرنا شروع کر دیا۔ اب 2014ء میں
وہ صاحب تو اپنی تھیوری سے رجوع کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے چالیس سال
پہلے غلط سمجھا تھا کہ بلیک ہولز سے کسی قسم کی انفارمیشن نہیں نکل سکتی اور جو
نکلتی ہے وہ نئی ہوتی ہے۔ اور اب وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ بلیک
ہولز ہر چیز کو اپنے اندر جذب کر لیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں “event horizons”
کی بجائے “apparent horizons
” پر سوچنا چاہیے کیونکہ کوانٹم میکانکس بھی پہلی صورت کو قبول نہیں کرتی ہےکہ جس
میں انفارمیشن ختم ہو جاتی ہے۔
ہماری نظر میں یہ رویہ بالکل بھی درست نہیں ہے
بلکہ نقصان دہ ہیں کیونکہ آج ہم اگر نظریہ ارتقاء اور بگ بینگ تھیوری کو قرآن مجید
سے ثابت کر کے مسلمانوں سے اس پر ایمان لانے کا مطالبہ کریں گے تو کل کلاں اہل
سائنس نے ہی اگر ان نظریات سے رجوع کر لیا تو پھر امت سے کیا کہیں گے؟ کہ خدا غلط
تھا؟ سائنس میں نظریہ (theory)
اور چیز ہے جبکہ امر واقعہ (fact) بالکل اور شیء ہے۔ اسی
طرح کسی شیء کے سائنسی امر واقعہ (scientific fact) ہونے کا ہر گز یہ مطلب
نہیں ہے کہ قرآن مجید بھی اسے لازما ً ہی بیان کرے۔ قرآن مجید کا موضوع فزکس،
بیالوجی، کیمسٹری، ریاضی نہیں بلکہ ہدایت کا بیان ہے ۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ
کتاب اللہ میں بعض ایسی باتیں موجود ہیں کہ جو دیگر علوم کا بھی موضوع ہے لیکن ان
میں بھی پروردگار کا اصل مقصود ہدایت کا پہلو ہے جیسا کہ سابقہ قوموں کے حالات
وواقعات نقل کیے گئے ہیں یا ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش کے مراحل بیان کیے گئے
ہیں وغیرہ۔
قرآن مجید کے بیان میں کچھ باتیں محکمات میں
سےہیں جبکہ کچھ متشابہات ہیں۔ کچھ آیات کا مفہوم صریح (explicit)
ہے جبکہ کچھ میں ایک سے زائد آراء کی گنجائش ہے۔ بچے کی پیدائش کے جو مراحل قرآن
مجید نے بیان کیے ہیں، وہ صریح ہیں۔ انہیں بیان کرنے یا ان کو سائنسی امر واقعہ کے
ساتھ ملا کر بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن مجید صحابہ کی زبان میں نازل ہوا اور
پروردگار نے ان سے ایساکلام کیا ہے جو ان کو سمجھ آئے۔ یہ تو کلام الہی کا نقص
شمار ہو گا کہ وہ نہ تو مخاطبین اولین کو سمجھ آیا کہ جنہیں سمجھانے ہی کے لیے و ہ
نازل کیا گیا تھا اور مزید یہ کہ خدا کا کلام سمجھنے کے لیے ہمیں چودہ صدیاں
انتظار بھی کرنا پڑا۔ قرآن مجید کا وہی مفہوم درست ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم
نے سمجھا اور سمجھایا کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا
عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿2﴾ [يوسف]
بعض ماہرین طبیعیات تو اس بات کو دبا ہی گئے کہ
“عدم” (nothing)
سے اگر کائنات خود وجود میں آ سکتی ہے تو ان کی “عدم” سے مراد کیا ہے جبکہ بعض نے
“عدم” سے “quantum vacuum”
مراد لیا ہے اور اس پر کافی بحث ہے کہ اب عامۃ الناس کو دھوکا دینے کے لیے الفاظ
کے معانی بھی اپنے ہی مراد لیے جائیں گے۔
ماخوذ از کتاب "اسلامی نظریہ حیات"
No comments:
Post a Comment